Search
 
Write
 
Forums
 
Login
"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Image Not found for user
User Name: AQKhan
Full Name: Dr Abdul Qadeer Khan
User since: 8/Jul/2009
No Of voices: 231
 
 Views: 2139   
 Replies: 0   
 Share with Friend  
 Post Comment  

نیک نیتی اور منافقت ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان

پچھلے چند ہفتوں میں سیلاب نے جو تباہی پھیلائی ہے اور عوام کو جن مشکلات (گھروں کی تباہی، بھوک ، پیاس ، اموات) کا سامنا کرنا پڑا ہے اسکو ذرائع ابلاغ نے بہت ہی شفاف طریقہ سے عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ لا تعداد فلاحی اداروں اور ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے حتی الامکان ضرورت مندوں کی مدد کی ہے۔ تمام ٹی وی اسٹیشنوں نے اس میں نہایت اہم کر دار ادا کیا ہے۔ نہایت قابل تحسین بات یہ تھی کہ ذرائع ابلاغ کے لاتعداد نمائندے بشمول خواتین نے جان کا خطرہ مول لے کر ان خطر ناک سیلابی علاقوں کا دورہ کیا اور جائے وقوع سے ہم سب کو عوام کی مشکلات اور تکالیف سے آگاہ کیا۔ حکومتی نمائندے حسب معمول جہازوں میں بیٹھ کر فوٹو سیشن کرتے رہے اور جعلی کیمپوں میں لفافے (خالی؟) بانٹتے رہے۔ جیو کی جانب سے میر خلیل الرحمن فاؤنڈیشن اور عمران خان نے بڑھ چڑھ کر چندہ جمع کیا اور ضرورت مندوں کو ضروری اشیاء فراہم کیں۔
ایک نہایت دردناک اور تکلیف دہ حقیقت جو سامنے آئی وہ یہ ہے کہ بین الاقوامی لیڈروں اور اداروں نے کھلے کھلے الفاظ میں بتلا دیا کہ ان کا ہمارے لیڈروں اور اداروں پر قطعی اعتماد نہیں ہے اور وہ سب ان لوگوں کو کرپٹ سمجھتے ہیں۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ اس مملکت خداداد پاکستان کے عوام کو یہ ذلّت بھی دیکھنا پڑی ۔
ایک نئی بحث اس سلسلہ میں وزیر اعظم گیلانی کے بیان نے چھیڑ دی ہے۔ آپ نے بیان داغ دیا کہ وہ اپنی بیگم کے تمام زیورات سیلاب زدگان کے فنڈ میں دیں گے اور آپ نے اپنے ساتھیوں سے بھی یہی کام کرنے کو کہا ، دیکھئے ایسا لگتا ہے کہ محترم وزیراعظم انسانی، خاص طو ر پر خواتین کی نفسیات سے قطعی بے بہرہ ہیں۔ ایک عورت کو اپنے زیور ہر چیز سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ اور وہ یہ بڑی مشکل سے طویل عرصہ میں جائز یا ناجائز آمدنی سے جمع کر تی ہے اور اب آپ اس سے کہیں کہ اس کو یکمشت دے دو تو یہ بہت مشکل کام ہے ۔ وزیر اعظم اپنے سوٹ، ٹائیوں کے بجائے اگر 45کروڑ معاف کرایا ہوا قرضہ واپس کردیں تو یہ بڑا کارنامہ ہوگا۔ اسی طرح دوسرے ساتھی بھی اپنا فرض ادا کریں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی دکھاوٹ او ر ڈھکوسلوں کی قوم کو ضرورت نہیں جو مدد مل چکی ہے اور جو وسائل موجود ہیں ان کو احسن طریقہ سے استعمال کرکے عوام کی اکثریت کی تکالیف دور کی جاسکتی ہیں۔ اہل اقتدار کا فرض ہے کہ اس دردناک موقع پر وہ ”امپورٹ“ کے بجائے ”ایکسپورٹ“ پر توجہ دیں۔ کیا قارون کا خزانہ اس کے کام آیا تھا؟
محترم وزیر اعظم کے اپنے کپڑے اور بیگم صاحبہ کے زیورات فروخت کرنے کے بیان نے مجھے پھر علم و فراست کے خزینہ حضرت شیخ سعدی
 مرحوم کی ایک حکایت یا د دلا دی جس کا اس بیان سے براہ راست تعلق ہے۔ آپ  نے فرمایا: ” عبدالعزیز نامی ایک بادشاہ تھا جس کے پاس ایک بڑا نہایت قیمتی موتی انگوٹھی میں جڑا ہو ا تھا۔ اس کے ملک میں ایک بار سخت قحط پڑا اور عوام بھوک سے مرنے لگے۔ یہ حالات دیکھ کر بادشاہ بے حد غمزدہ اور پریشان ہوا اور عوام سے دلی ہمدردی کے اظہار کے طور پر اس نے نہایت عزیز و قیمتی موتی کو فروخت کرنے کا ارادہ کیا تا کہ اس سے حاصل شدہ رقم سے عوام کے لئے اناج وغیرہ خریدا جا سکے۔ ایک مشیر نے اس کو بہکانے کی کوشش کی کہ ایسا انمول موتی اس کے پاس پھر کبھی نہیں آئے گا ۔
بادشاہ پر رقت طاری ہو گئی اور اس نے کہا کہ بادشاہ کے جسم پر ایسا قیمتی زر و جوہر ایک لعنت ہے کہ جس کی موجودگی میں اس کے عوام اپنی ضروریات زندگی کے لئے سخت پریشان ہوں۔ مجھے بغیر موتی کی انگوٹھی اس بات سے لاکھ درجہ عزیز ہے کہ میرے عوام پریشانی میں مبتلا ہوں۔ “شیخ سعدی
 نے نصیحت فرمائی کہ وہ حکمران خوش قسمت اور پر سکون رہتا ہے جو اپنے عوام کے آرام اور ضروریا ت کو اپنے آرام اور سہولتوں پر ترجیح دیتا ہے۔ اس کی پاک خواہشات اپنے آرام و آسائش کے اوپر عوام کے آرام کو ترجیح دیتی ہے۔ اگر بادشاہ اپنے آرام دہ بستر پر بغیر کسی فکر اور پریشانی سے سوتا ہے تو غریب بے چارے کی ضروریات کس طرح پوری ہو سکتی ہیں اور اس کی تکالیف کا کس طرح ازالہ ہو سکتا ہے۔ شیخ سعدی نے ایک اور واقعہ دمشق میں قحط سالی و مصیبت کے بارے میں بیان فرمایا ہے۔ اس کی ابتدا یوں کی ہے:
چناں قحط سالی شد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کر دند عشق
یعنی ایک مرتبہ دمشق میں ایسا قحط پڑا کہ عاشق محبت کرنا بھول گئے یعنی بھوک و پیاس نے صرف پیٹ کی فکر کو غالب کر دیا تھا۔ آپ
 نے لکھا ہے کہ آسمان سے اس قد ر آتش برس رہی تھی کہ زمین خشک ہو گئی، اناج کی فصلیں تباہ ہوگئیں اور کھجور کے درخت سوکھ گئے ۔ چشمے سوکھ گئے اور بے یار و مدد گار لوگوں کی آنکھوں میں سوائے نمی کے کچھ باقی نہ رہا ۔ درختوں کے تمام پتے جھڑ گئے اور پہاڑوں کی ہریالی غائب ہو گئی۔ اس وقت آپ  کے پاس ایک عزیز دوست آیا جو ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا تھا ۔ ہڈیوں کے اوپر صرف کھال ہی رہ گئی تھی۔ مجھے بہت حیرانی اور تعجب ہوا کیونکہ یہ شخص اچھا خاصا صاحب حیثیت تھا۔ میں نے فوراََ پوچھا کہ اس پر کونسی مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔ اس نے کہا کہ کیا میں اپنے ہوش و حوا س میں ہو ں کہ دیکھتا نہیں کہ پوری قوم ایک عذاب الٰہی ، قحط سالی کا شکار ہے نہ ہی آسمان سے بارش گرتی ہے اور نہ ہی متاثرہ عوام کی آہیں اور التجائیں رب العالمین تک پہنچ رہی ہیں۔

 میں نے جواب دیا کہ تجھ کو اس کا کیا خوف ہے ۔ زہر صرف ان ہی کو ہلاک کر تا ہے جن کے پا س تریاق نہ ہو۔ میرے دوست نے میری جانب حقارت کی نظر ڈالی بالکل اسی طرح جس طرح ایک عالم ایک جاہل کی طرف یا ایک امیر ایک فقیر کی طرف اور پھر یوں مخاطب ہوا۔ اگرچہ ممکن ہے کہ ایک انسان پانی کے کنارے بحفاظت کھڑا ہو مگر وہ اپنے دوستوں کو ڈوبتا دیکھ کر بے حس و بے عمل کھڑا نہیں رہ سکتا۔ میرا چہر ہ کسی چیز کی کمی کی وجہ سے زرد نہیں ہے بلکہ اپنے ہم وطنوں کی تکالیف اور دُکھ میرے دل کو مجروح کرتا ہے۔ اگرچہ بفضل خدا میں زخموں اور تکالیف سے محفوظ ہوں مگر میں اپنے ہم وطنوں کے زخم اور تکالیف دیکھ کر کانپ رہا ہوں۔ شیخ سعدی  نے نصیحتاً فرمایا کہ اس فرد کی خوشیاں بے معنی اور کڑوی ہیں جبکہ ایک بیمار اس کے پاس موجو د ہو، اور جبکہ ایک حاجتمند نے کچھ نہ کھا یا ہواور بھوکا ہو تو اس فرد کا کھانا نجاست اور زہر کے برابر ہے۔
میں نے یہ دو حکایات شیخ سعدی
موجودہ حالات کی روشنی میں بیان کی ہیں۔ پہلے تو محترم وزیر اعظم کا مشورہ کہ کپڑے اور زیور بیچ کر مصائب کا حل نکالا جائے اور دوئم یہ کہ حکمران طبقہ عیش و عشرت میں لگا ہو ا ہے اور کروڑوں عوام بھوک و پیاس سے تڑپ رہے ہیں۔
موجودہ حالات مجھے حضرت امام غزالی
 کی بیان کردہ یہ حدیث یاد دلاتی ہے (مکاشفتہ القلوب) ۔ ”جب فقیروں سے لوگ دشمنی کریں گے ، دُنیاوی شان و شوکت کا (بھرپور) اظہار کریں گے اور مال و زر کے جمع کرنے میں (ایک دوسرے کے) حریص ہو جائیں گے تو ان پر اللہ تعالیٰ چار لعنتیں نازل کرے گا۔(۱)قحط سالی، ظالم و بے حس حکمران ، خائن حاکم، اور دشمنوں کا غلبہ ۔“ اس وقت یہ تمام مصیبتیں ہم پر نازل ہیں مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ہے ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ :
کشتگانِ خنجر تسلیم را
ہرزماں ازغیب جان دیگر است
یعنی کہ جب خنجر قتل کرنا چاہتا ہے تو ہر دفعہ مختلف سمت سے آتا ہے۔ ارباب اختیار کی خدمت میں بس یہی شعر عرض ہے :
چار جانب گونجتی آواز کے تیور سمجھ
دو گھڑی تو سو چ ! تیرے گھر میں کیا ہونے کو ہے

 No replies/comments found for this voice 
Please send your suggestion/submission to webmaster@makePakistanBetter.com
Long Live Islam and Pakistan
Site is best viewed at 1280*800 resolution