Search
 
Write
 
Forums
 
Login
"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Image Not found for user
User Name: Hamid_Mir
Full Name: Hamid Mir
User since: 13/Jul/2007
No Of voices: 491
 
 Views: 2357   
 Replies: 12   
 Share with Friend  
 Post Comment  

 Reply:   Fawad – Digital Outreach Team – US State Departmen
Replied by(Fawad_-_Digital_Outreach_Team_US_State_Dept) Replied on (15/Jun/2009)


اسرائيل کو دی جانے والی امريکی امداد

امريکی حکومت کی جانب سے اسرائيل، فلسطين يا کسی بھی ملک کو دی جانے والی امداد بہت سے عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔ اس ضمن ميں کوئ ايسا مستقل کليہ يا ضابطہ استوار نہيں کيا جا سکتا جو بيک وقت دنيا کے تمام ممالک کی ہر پل بدلتی ہوئ صورت حال اور ضروريات کو مد نظر رکھتے ہوۓ بحث و مباحثے سے مبرا ہو۔ يہ ايک مستقل عمل کا حصہ ہوتا ہے جس ميں سرکاری اور غير سرکاری تنظيموں اور دونوں ممالک کے مختلف اداروں کے بے شمار ماہرين شامل ہوتے ہيں۔

عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ باہمی مفاد کے ايسے پروگرام اور مقاصد پر اتفاق راۓ کیا جاۓ جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ اسی تناظر ميں وہی روابط برقرار رہ سکتے ہيں جس ميں دونوں ممالک کا مفاد شامل ہو۔ دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔

يہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ امريکہ کی طرف سے دی جانے والی امداد مختلف جاری منصوبوں اور زمينی حقائق کی روشنی ميں دونوں ممالک کے مابين باہم تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوۓ وقت کے ساتھ تبديل ہوتی رہی ہے۔

مثال کے طور پر اس وقت امريکہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد کا بڑا حصہ فاٹا ميں جاری ترقياتی منصوبوں پر صرف ہو رہا ہے تاکہ اس علاقے کے لوگوں کو متبادل ذريعہ معاش کے مواقع مہيا کر کے دہشت گردی کا مقابلہ کيا جا سکے۔

اسی طرح اگر آپ سال 2000 سے اسرائيل کو دی جانے والی امداد کا جائزہ ليں تو سال 2003 کے سوا ہر سال اسرائيل کی غير ملکی امداد پر انحصار کے توازن اور ضرورت کے پيش نظر امريکی امداد ميں بتدريج کمی واقع ہوئ ہے۔ ليکن اسی عرصے ميں امريکہ فلسطين کو امداد دينے والے ممالک ميں سرفہرست ہے۔

http://img119.imageshack.us/my.php?image=snap1o.jpg

اس کے علاوہ جب آپ اسرائيل اور فلسطين کو دی جانے والی امريکی امداد کا تقابلی جائزہ پيش کرتے ہیں تو آپ تصوير کے صرف ايک چھوٹے سے حصے پر اپنی توجہ مرکوز کيے ہوۓ ہیں۔ آپ کو اس پورے خطے ميں امريکہ کی جانب سے اپنے دوستوں اور اتحاديوں کو دی جانے والی امداد کا تقابلی جائزہ لينا ہو گا جو کہ غير جانب داری اور توازن کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اس ضمن ميں آپ اس خطے ميں عرب ممالک کو دی جانے والی امداد کے اعداد وشمار کو بھی مد نظر رکھيں۔ اپنی بات کی دليل کے ليے ميں آپ کو مصر کی مثال دوں گا جس کو امريکہ کی جانب سے پچھلی تين دہائيوں ميں 28 بلين ڈالرز کی امداد دی جا چکی ہے۔

http://www.usaid.gov/our_work/features/egypt/


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 
 Reply:   Fawad – Digital Outreach Team – US State Departmen
Replied by(Fawad_-_Digital_Outreach_Team_US_State_Dept) Replied on (15/Jun/2009)


سال 1971 کی پاک بھارت جنگ اور امريکہ کی جانب سے ايک بحری جہاز کا مبينہ وعدہ

امريکہ اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے اس "واقعے" کا ہميشہ ذکر کيا جاتا ہے اور 1971 کی جنگ ميں امريکہ کی جانب سے فوجی امداد نہ ملنے کو اس دليل کے طور پر پيش کيا جاتا ہے کہ امريکہ نے وعدے کے باوجود مشکل وقت ميں پاکستان کی مدد نہيں کی۔ اس حوالے سے اہم بات يہ ہے کہ کبھی کسی فوجی معاہدے، کسی امريکی اہلکار کے سرکاری بيان يا کسی ايسی مصدقہ دستاويز يا شخصيت کا ذکر نہيں کيا جاتا جس کی بنياد پر حقائق کی تحقيق کی جا سکے۔

ميں نے يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے 1971 کی پاک بھارت جنگ اور اس حوالے سے امريکہ کے کردار کی حقيقت جاننے کے ليے بہت سی دستاويز حاصل کی ہيں جن ميں کچھ متعلقہ مواد يہاں پيش کر رہا ہوں۔

اگست 16 1971 کی يہ دستاويزايک رپورٹ پر مبنی ہے جو ہنری کسنجر نے اس وقت کے امريکی صدر کو ارسال کی تھی جس ميں 16 دسمبر 1971 کے واقعے سے چند ماہ قبل امريکی حکومت کی برصغير ميں بڑھتی ہوئ کشيدگی کے پس منظرميں خارجہ پاليسی کی وضاحت ہوتی ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689724&da=y

اس پورٹ کے صفحہ نمبر 2 پر ہنری کسنجر لکھتے ہيں کہ

"ميں نے برصغير کے حوالے سے اپنی پاليسی ميں واضح کيا ہے کہ ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہيں کہ معيشت اوربنگالی مہاجرين کے مسائل کو سياسی معاملات خاص طور پر مشرقی بنگال کے معاملے سے الگ رکھا جاۓ کيونکہ يہ وہ معاملات ہيں جہاں ہم مدد کرنا چاہتے ہيں۔ مشکل ترين اندرونی مشکلات کے باوجود ہم نہ ہی پاکستان کی سبکی چاہتے ہيں اور نہ ہی دوسروں کو ايسا موقع دينے کے حق ميں ہيں۔ بنگالی مہاجرين کے حوالے سے بھارت کی مشکلات سے آگاہ ہيں ليکن اس صورت حال کی آڑ ميں بھارت کو پاکستان سے پرانے حساب پورے کرنے ميں اس کا ساتھ نہيں ديں گے۔ ہم نے بھارت پر واضح کر ديا ہے کہ کسی فوجی کاروائ کی صورت ميں اس کی معاشی امداد بند کر دی جاۓ گی"۔

اسی دستاويز کے صفحہ نمبر 7 ميں فرانس ميں چين کے سفير ہوانگ چين اور ہنری کسنجر کی گفتگو کا يہ حصہ امريکی پاليسی کی وضاحت کرتا ہے۔ ہنری کسنجر کے مطابق

" اگر بھارت نے ہميں مشرقی پاکستان کے سياسی مسلۓ ميں ملوث کرنے کی کوشش کی تو ہمارا موقف يہ ہو گا کہ اس کا انحصار پاکستان پرہے نا کہ امريکہ پر۔ ہم چاہتے ہيں کہ پاکستان بنگالی مہاجرين کی واپسی اور ان کی آبادکاری اور بہبود کا ايسا مربوط پروگرام تيار کرے کہ بھارت کو مداخلت کا موقع نہ مل سکے"

اسی صفحے پر گفتگو کا يہ حصہ خاصہ اہم ہے۔۔۔

"ميں آپ کو ذاتی حيثيت ميں يہ بات بتا رہا ہوں کہ ہمارا تاثر يہ ہے کہ حکومت پاکستان قابل احترام ليکن سياسی تدبر سے عاری ہے۔ پاکستان کے جتنے بھی دوست ہيں انھيں چاہيے کہ وہ اس امر ميں پاکستان کی حوصلہ افزائ کريں تاکہ مہاجرين کی واپسی کو يقينی بنايا جا سکے۔ صرف اسی صورت ميں ہماری حکمت عملی کو کاميابی مل سکتی ہے جس کے مطابق ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کو فوجی مداخلت کا کوئ موقع نہ ملے۔"

پاکستان کو کسی بھی قسم کی فوجی امداد کی فراہمی کے حوالے سے امريکی پاليسی کی وضاحت اسی رپورٹ کے صفحہ 8 پر موجود ہے

"کانگريس کے فیصلے کے مطابق ہم کسی بھی قسم کی فوجی امداد نہيں دے سکتے۔ ليکن اگر پاکستان کے دوسرے دوست فوجی سازوسامان فراہم کرنا چاہيں تو ہم يہ بات سمجھ سکتے ہيں۔ تاہم مشرقی پاکستان ميں انارکی روکنے کے ليے ہم ہر قسم کی معاشی امداد اور خوراک کی فراہمی کے پروگرام کو يقينی بنائيں گے۔"

پندرہ نومبر1971 کی اس دستاويز ميں "ٹاسک گروپ" بيجھنے کا ذکر موجود ہے ليکن اس کا مقصد کسی ايک فريق کی مدد نہيں بلکہ حالات بگڑنے کی صورت ميں کسی تيسرے فريق کو اس تنازے ميں شامل ہونے سے روکنا تھا۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689725&da=y

سات دسمبر 1971 کی اس دستاويز کے مطابق امريکہ نے پاکستان اور بھارت پر يہ واضح کر ديا تھا کہ جنگ کی صورت ميں دونوں ممالک کو امريکہ کی جانب سے کسی بھی قسم کے فوجی سازوسامان کی ترسيل نہيں کی جاۓ گی۔ اسی دستاويز سے يہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کے صدرجرنل يحيی اس حقيقت سے پوری طرح آگاہ تھے اور انھوں نے اس ضمن ميں جارڈن کے شاہ حسين سے ايف – 104 طياروں کی فراہمی کی درخواست بھی کی تھی۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689726&da=y

اسی رپورٹ کے صفحہ 5 کا آخری پيراگراف انتہاہی اہم ہے جس کے مطابق

امريکہ نے 1965 سے جاری پاک بھارت کشيدگی کے بعد سے دونوں ممالک کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی روک دی ہے۔ اس قانون ميں صرف ايک بار نرمی اکتوبر 1970 ميں کی گئ تھی جب پاکستان کو20 ايف – 5 طياروں کی فراہمی کا وعدہ کيا گيا تھا ليکن اس معاہدے پر حکومت پاکستان نے دستخط نہيں کيے تھے۔

ان دستاويزی ثبوتوں کی موجودگی ميں يہ دعوے کرنا کہ امريکہ نے 1971 کی جنگ ميں پاکستان کی فوجی امداد کے وعدے کيے تھے بالکل بے بنياد ثابت ہوجاتے ہيں۔

پاک بھارت 1971 کی جنگ میں امريکہ کا کردار سمجھنے کے ليے 7 دسمبر 1971 کو وائٹ ہاؤس ميں ہنری کسنجر کی يہ پريس کانفرنس نہايت اہم ہے۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ اس وقت سفارتی سطح پر امريکہ پر اس حوالے سے کڑی تنقيد کی جا رہی تھی کہ امريکہ کا جھکاؤ مکمل طور پر پاکستان کی جانب تھا،جيسا کہ پريس کانفرنس ميں کيے جانے والے مختلف سوالوں سے واضح ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689727&da=y

ويسے يہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے ضمن ميں ايک بحری بيڑے کا ذکر اس طرح کيا جاتا ہے جيسے پوری جنگ کے نتيجے کا دارومدار محض اسی بات پر تھا۔ يہ حقيقت ہے کہ 1971 کی جنگ ميں ناکامی پر پاکستانی قائدين کی سياسی ناکامی کو تسليم کرنے کے مقابلے ميں امريکہ کو مورد الزام قرار دينا زيادہ آسان ہے۔ ليکن ايسے سينکڑوں دستاويزی ثبوت موجود ہيں جس ميں امريکی حکومت کا موقف واضح ہے جس کے مطابق دونوں ممالک پر يہ واضح کر ديا گيا تھا کہ جنگ کی صورت ميں دونوں ممالک کو کسی بھی قسم کی فوجی امداد مہيا نہيں کی جاۓ گی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov www.state.gov
 
 Reply:   Fawad – Digital Outreach Team – US State Departmen
Replied by(Fawad_-_Digital_Outreach_Team_US_State_Dept) Replied on (15/Jun/2009)


افغانستان میں امريکی افواج کی موجودگی

اس وقت افغانستان ميں پر تشدد واقعات کی ذمہ دار امريکی افواج نہيں بلکہ القائدہ اور اس سے معلقہ انتہا پسند تنظيميں اوردہشت گرد ہيں جو خودکش حملوں کے ذريعے بے گناہ افغان شہريوں کو قتل کر رہے ہيں۔

جہاں تک يہ کہنا ہے کہ امريکی افواج کو افغانستان سے فوری طور پر نکل جانا چاہيےتو اس حوالے سے يہ بتا دوں کہ امريکی حکام بھی يہی چاہتے ہيں کہ جلد از جلد فوجيوں کو واپس بلايا جاۓ ليکن آپ کچھ زمينی حقائق نظرانداز کر رہے ہيں۔

اس وقت امريکی افواج افغانستان ميں منتخب افغان حکومت کے ايما پر موجود ہيں اور افغان افواج کی فوجی تربيت کے ذريعے اس بات کو يقينی بنا رہی ہيں کہ افغانستان سے امريکی افواج کے انخلا کے بعد سيکيورٹی کے حوالے سے پيدا ہونے والے خلا کو پر کيا جا سکے۔ بہت سے فوجی ماہرين نے اس خدشے کا اظہار کيا ہے کہ اگر امريکی افواج کو فوری طور پر افغانستان سے واپس بلا ليا گيا تو پر تشدد کاروائيوں پر قابو پانا ممکن نہيں رہے گا اور خطے ميں امن کا قيام محض ايک خواب بن کر رہ جاۓ گا۔ يہاں يہ بات بھی ياد رکھنی چاہيے کہ ماضی ميں افغانستان کی سرزمين امريکہ پر دہشت گردی کے کئ واقعات کے ضمن ميں براہ راست ان دہشت گردوں کی تربيت کے ليے استعمال ہوئ تھی۔ امريکہ دوبارہ اسی صورت حال کا متحمل نہيں ہو سکتا۔

امريکہ افغانستان سے جلد از جلد نکلنا چاہتا ہے ليکن اس کے ليے ضروری ہے کہ افغان حکومت اس قابل ہو جاۓ کہ امريکی افواج کے انخلا سے پيدا ہونے والے سيکيورٹی کے خلا کو پورا کر سکے بصورت ديگر وہاں پر متحرک انتہا پسند تنظيميں جوکہ اس وقت بھی روزانہ عام افغان باشندوں کو قتل کر رہی ہيں، مزيد مضبوط ہو جائيں گی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 
 Reply:   who made Talibaan Mr Fawad?
Replied by(Noman) Replied on (12/Jun/2009)

Who is trying to do dialog with Talibaan in Afghanistan?
Who is saying that War is not a solution in Afghanistan & Iraq (Obama's latest Speech)?
Butttttt
At the same time who is asking Pakistan to Do more?
Who is asking Pakistan to extend the war field?
Who is giving threats to Pakistan that if you didn't take action, we will take?
If it is our internal matter then let us deal with it. why the hell America is trying to dictate us and giving us threats?
We are aware of what America did in Argentine, Vietnam, Russia, Iraq and Somalia.
we haven't forget yet the way America/Lawrence of Arabia destroyed the Khilafat.
We still remember the way America ditched us in 1971.
So, you please keep your GOOOOOD America with us.
You were very proudly telling us about the 1.6b$ aid America will give us, But this is not even a peanut compare to the aid America is giving to Israel. Do you know the estimate of re-settling of Sarajevo people, due to Russia's recent aggression.
25000 people displaced and estimate of their resettlements about 20b$.
in Pakistan 3000000 people dis-placed, can you tell me how exactly we will need after this bloody war? and what America will give us???
Please, for God sake Leave Pakistan Alone...

And your job description clearly stating that, whether right or wrong, you have to defend America on all Pakistani forums. This is your job to save America and our job is to save Pakistan.
 
 Reply:   Fawad – Digital Outreach Team – US State Departmen
Replied by(Fawad_-_Digital_Outreach_Team_US_State_Dept) Replied on (12/Jun/2009)


شايد اعداد وشمار کی روشنی ميں مثبت بحث کرنے کے مقابلے ميں جذباتی تنقيد کرنا آسان کام ہے۔

ميں نے اس حقيقت سے انکار نہيں کيا کہ ميں يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ليے کام کرتا ہوں بلکہ ميں نے اپنی پوسٹ کے آغاز ميں اپنی وابستگی واضح کی ہے۔ کيا کسی بھی موضوع کے حوالے سے اپنی راۓ قائم کرنا آپکی قومی وابستگی سے مشروط ہونا چاہيے؟


شايد آپ کے نزديک ايک سچا مسلمان ہونے کے ليے يہ لازمی شرط ہے کہ امت مسلمہ کو درپيش تمام اندرونی اور بيرونی مسائل کا ذمہ امريکہ کو قرار دے کر اپنی ذمہ داريوں سے ہاتھ صاف کر ليے جائيں۔ ميں اس فلسفے سے اتفاق نہيں کرتا۔


ميں نے يہ کبھی دعوی نہيں کيا کہ امريکی حکومت اور اس کی خارجہ پاليسيوں پر "سب اچھا ہے" کی مہر لگائ جا سکتی ہے۔ ليکن کيا آپ جذبات کو بالاۓ طاق رکھ کر يہی بات تسليم کر سکتے ہيں کہ دہشت گردی کے حوالے سے ہماری صفوں ميں "سب اچھا نہيں ہے"؟

ميں نے صرف اس راۓ کا اظہار کيا ہے کہ دہشت گردی اور طالبان کے حوالے سے پاکستان کا ايک اہم کردار رہا ہے۔ يہ راۓ ان عوامی جذبات سے ہٹ کر ہے جنھيں پاکستانی ميڈيا پر کچھ عناصر نے بڑھا چڑھا کر پيش کيا جاتا ہے، جس کے مطابق "دہشت گردی پاکستان کا مسلہ نہيں ہے اور ہم محض امريکہ کی جنگ لڑ رہے ہيں"۔ زمينی حقائق اس سے بالکل مختلف ہيں۔ ميری اس راۓ کی بنياد جذباتی نعرے نہيں بلکہ وہ تاريخی حقائق ہيں جو ميں اس فورم پر دستاويزی ثبوت کے ساتھ پيش کر چکا ہوں۔





فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 
 Reply:   کبھی پا کستا ن یا اسل م کی بھی ا یسی و کا لت کر یں
Replied by(F.A.) Replied on (11/Jun/2009)


فو ا د صا حب کما ل ھو گیا

"مد عی سست ،گو ا ہ چست"
 
 Reply:   Fawad – Digital Outreach Team –US State Department
Replied by(Fawad_-_Digital_Outreach_Team_US_State_Dept) Replied on (11/Jun/2009)

امريکہ سميت کسی بھی ملک کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ تمام سياسی، سفارتی اور دفاعی ضروريات کو نظرانداز کر کے مذہب کی بنياد پر خارجہ پاليسی ترتيب دے اور اور اسی بنياد پر ملکی مفاد کے فيصلے کرے۔ اردو فورمژ پر اکثر دوست يہ راۓ ديتے ہيں کہ امريکہ عالم اسلام کا دشمن ہے اور پاکستان کے ساتھ امريکہ کے تعلقات کی نوعيت اسی اسلام دشمنی سے منسلک ہے۔ اسی مفروضے کو بنياد بنا کر سياسی سطح پر ہر واقعے، معاہدے اور ملاقات کو "امريکہ کی اسلام کے خلاف سازشيں" کے تناظر ميں ديکھا جاتا ہے۔

اگر مذہب کی بنياد پر خارجہ پاليسي کا مفروضہ درست ہوتا تو پاکستان کے صرف مسلم ممالک کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات ہونے چاہيے۔ اسی طرح امريکہ کے بھی تمام غير مسلم ممالک کے ساتھ بہترين سفارتی تعلقات ہونے چاہيے۔ ليکن ہم جانتے ہيں کہ ايسا نہيں ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ مسلم ممالک کے مابين بھی سفارتی تعلقات کی نوعيت دو انتہائ حدوں کے درميان مسلسل تبديل ہوتی رہتی ہے۔ امريکہ کے کئ مسلم ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات استوار ہيں۔ يہ بھی ايک حق‍یقت ہے کہ دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت زمينی حقائق کی روشنی ميں کبھی يکساں نہيں رہتی۔

عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ باہمی مفاد کے ايسے پروگرام اور مقاصد پر اتفاق راۓ کیا جاۓ جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ اسی تناظر ميں وہی روابط برقرار رہ سکتے ہيں جس ميں دونوں ممالک کا مفاد شامل ہو۔ دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوۓ يہ کيسے ممکن ہے کہ امريکہ درجنوں اسلامی ممالک ميں ايک بلين سے زائد مسلمانوں کو دشمن قرار دے اور صرف اسی غير منطقی مفروضے کی بنياد پر خارجہ پاليسی کے تمام امور کے فيصلے کرے۔

اسلام اور امريکہ کے تعلقات کو جانچنے کا بہترين پيمانہ امريکہ کے اندر مسلمانوں کو ديے جانے والے حقوق اور مذہبی آزادی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر آپ دنيا پر ايک خاص سوچ يا مذہب کے بارے ميں ايک راۓ رکھتے ہيں تو اس کا آغاز اپنے گھر سے کريں گے۔

امريکہ کے اندر اس وقت 1200 سے زائد مساجد اور سينکڑوں کی تعداد ميں اسلامی سکول ہيں جہاں اسلام اور عربی زبان کی تعليم دی جاتی ہے۔ امريکی معاشرے کی بہتری کے ليے مسلمانوں کو ديگر مذاہب کے لوگوں سے بات چيت اور ڈائيلاگ کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اس کی ترغيب بھی دی جاتی ہے۔ امريکی سپريم کورٹ نے قرآن پاک کو انسانی تاريخ ميں ايک اہم قانونی وسيلے کی حيثيت سے تسليم کيا ہے۔ امريکہ کے وہ دانشور اور رہنما جنھوں نے امريکی آئين تشکيل ديا انھوں نے کئ امور پر باقاعدہ قرآن سے راہنمائ لی۔ قرآن پاک کا انگريزی ترجمہ تھامس جيفرسن کی ذاتی لائبريری کا جصہ تھا۔ قرآن پاک کے اسی نادر نسخے پر کانگريس کے مسلم رکن کيتھ ايليسن نے حلف اٹھايا تھا۔

مسلمانوں کو بحثيت مجموعی امريکی ميں کبھی اجتماعی سطح پر نسلی امتياز اور تفريق کا سامنا نہيں کرنا پڑا جيسا کہ کچھ اور طبقات کو کرنا پڑا ہے۔ امريکہ ميں سياہ فام افريقيوں کو ايک طويل جدوجہد کے بعد اپنے آئينی حقوق ملے تھے۔ خواتين کو ووٹ کا اختيار صرف ايک صدی پرانی بات ہے۔ اسی طرح پرل ہاربر کے واقعے کے بعد امريکہ ميں مقيم جاپانيوں کو باقاعدہ کيمپوں ميں قيد کيا گيا تھا جس کے بعد امريکہ دوسری جنگ عظيم ميں شامل ہوا۔ اس کے مقابلے ميں مسلمانوں کو گيارہ ستمبر کے واقعے کے بعد اس ردعمل کا سامنا نہيں کرنا پڑا جس کی مثال ماضی ميں ملتی ہے حالانکہ 11 ستمبر کے واقعے ميں ملوث افراد نہ صرف يہ کہ مسلمان تھے بلکہ انھوں نے اپنے جرم کو قابل قبول بنانے کے ليے مذہب کا سہارا بھی ليا تھا۔ اس کے باوجود امريکی کميونٹی کا ردعمل مسلم اقليتوں کے خلاف اتنا سنگين اور شديد نہيں تھا۔ يہ درست ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کچھ واقعات پيش آۓ تھے ليکن وہ انفرادی نوعيت کے تھے، اس کے پيچھے کوئ باقاعدہ منظم تحريک نہيں تھی۔

آج بھی چند مواقع پرکانگريس کے سيشن کے آغاز ميں قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے اہم رہنماؤں کو کسی متعلقہ معاملے ميں مسلمانوں کا نقطہ نظر کانگريس کی مختلف کميٹيوں کے سامنےپيش کرنے کے ليے باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے۔ مسلمان ہر لحاظ سے امريکی معاشرے کا حصہ ہيں۔ ان کے پاس بھی معاشرتی حقوق اور ذمہ دارياں ہيں جو وہ بخوبی انجام ديتے ہيں۔

ليکن اس کے باوجود امريکہ اور اسلام کے تعلقات کے حوالے سے اکثر سوالات اٹھاۓ جاتے ہيں۔ عام طور پر يہ سوالات جذبات کا اظہار اور الزامات کی شکل ميں ہوتے ہيں۔ مثال کے طور پر – امريکہ عالم اسلام کے خلاف جنگ کيوں کر رہا ہے؟ کيا مشرق وسطی ميں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس بات کا ثبوت نہيں کا امريکہ تہذيبوں کی جنگ کو فروغ دے رہا ہے؟ ان سوالوں کے جواب ميں ميرا بھی ايک سوال ہے کہ جب امريکی حکومت نے اپنے ملک ميں کسی مذہب يا قوم پر پابندی نہيں لگائ تو پھر يہ الزام کيسے لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ پوری دنيا پر ايک خاص نظام، مذہب يا اقدار مسلط کرنے کا خواہش مند ہے ؟

ميرے نزديک يہ نقطہ بھی نہايت اہم ہے کہ امريکہ ميں اسلام کے تيزی سے پھيلنے کی وجہ يہ ہے کہ امريکہ ميں مقيم بہت سے تعليم يافتہ مسلمانوں نے اپنے مثالی طرز عمل اور برداشت کی حکمت عملی کے ذريعے غير مسلموں کو اسلام کی طرف مائل کيا ہے۔

آخر ميں صرف اتنا کہوں گا کہ امريکہ اسلام کا دشمن نہيں ہے۔ عالمی تعلقات عامہ کی بنياد اور اس کی کاميابی کا انحصار مذہبی وابستگی پر نہيں ہوتا۔ اس اصول کا اطلاق امريکہ سميت تمام مسلم ممالک پر ہوتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 
 Reply:   Fawad, you are not welcome here, and you better keep your explanation
Replied by(Noman) Replied on (10/Jun/2009)

Fawad, you are not welcome here, and you better keep your explanation to your self.
We all are well aware of dirty politics America has played and still playing with rest of the world and especially with Islam. Most of his dirty works has been exposed by himself only in de-classified documents.

 
 Reply:   Fawad – Digital Outreach Team – US State Departmen
Replied by(Fawad_-_Digital_Outreach_Team_US_State_Dept) Replied on (10/Jun/2009)


صحافی حامد مير کی يہ دليل کہ طالبان کے ترجمان 7 برس تک امريکہ ميں رہے ہيں اور محض اس بنياد پر يہ دعوی کہ امريکہ سوات ميں طالبان کی مدد کر رہا ہے – خود ان کے صحافتی کردار کے حوالے سے کئ سوالوں کو جنم دے رہا ہے۔ يہ دليل کسی بھی منطق، عقلی شعور اور بنيادی سمجھ بوجھ سے عاری ہے۔

کيا يہ درست نہيں ہے کہ عمران خان قريب 18 سال برطانيہ ميں رہے ہيں تو کيا وہ برطانوی جاسوس قرار ديے جا سکتے ہيں؟

پاکستان کے صدر آصف زرداری بھی امريکہ ميں کچھ برس گزار چکے ہیں۔ ايم – کيو – ايم کے ليڈر الطاف حسين اپنی جوانی کے زمانے ميں امريکہ ميں ٹيکسی چلايا کرتے تھے۔ نوازشريف سعودی عرب ميں کئ سال گزار چکے ہيں۔ آج بھی ان کا برطانيہ ميں ذاتی گھر ہے۔ آرمی چيف جرنل کيانی بھی فوجی تربيت کے دوران کچھ عرصہ امريکہ ميں گزار چکے ہیں۔

اگر ہم حامد مير کی منطق کو درست تسليم کر کے سب کو اسی نگاہ سے ديکھيں تو پھر شايد پاکستان ميں عوام سے زيادہ جاسوس اور ايجنٹ ہوں گے۔

حامد مير نے خود بھی کچھ عرصہ بيرون ملک ميں گزارا ہے تو کيا خود ان کے بارے ميں بھی سوالات اٹھائيں جانے چاہيے؟

يہ نقطہ بھی اہم ہے کہ مسلم خان نے صرف امريکہ ميں ہی نہيں بلکہ کويت ميں بھی کچھ وقت گزارا ہے۔

حامد مير کی اسی منطق کو اگر آپ ايک قدم آگے لے جائيں تو پھر تو افغان صدر حامد کرزئ بھی اسلام آباد ميں کچھ سال رہے ہيں۔ اس حساب سے آپ انھيں کيا کہيں گے؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 
 Reply:   Fawad – Digital Outreach Team – US State Departmen
Replied by(Fawad_-_Digital_Outreach_Team_US_State_Dept) Replied on (10/Jun/2009)

ميں نہيں جانتا کہ طالبان کے ترجمان مسلم خان کا خاندان اس وقت امريکہ ميں مقيم ہے يا نہيں۔ ليکن جو بھی امريکی معاشرے کے قوانين سے واقف ہے وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ جب تک وہ خود کسی مجرمانہ کاروائ ميں ملوث نہيں پاۓ گۓ، انھيں گرفتار نہيں کيا جا سکتا۔ امريکہ ميں آپ کو محض خاندانی تعلقات کی بنا پر گرفتار نہيں کیا جا سکتا۔

يہ بات قابل توجہ ہے کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی سال 2003 سے ايف – بی – آئ کو مطلوب تھيں۔ اس دوران ان کے بھائ ہوسٹن ٹيکسس ميں ملازمت کر رہے تھے۔ انھيں نہ تو گرفتار کيا گيا اور نہ ہی زير تفتيش لايا گيا۔ کيا يہ بات ڈاکٹر عافيہ کو امريکی ايجنٹ ثابت کرتی ہے؟

اسامہ بن لادن اس وقت دنيا کا سب سے بڑا مطلوب شخص ہے ليکن سعودی حکومت نے نہ تو ان کے خاندان کے افراد کو گرفتار کيا ہے اور نہ ہی ان کے خاندانی کاروبار پر کوئ پابندياں عائد کی ہيں۔ کيا اس سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن سعودی ايجنٹ ہيں؟

اس طرح کی بے سروپا منطق اور دليل اس بات سے توجہ ہٹا ديتی ہے کہ مسلم خان جيسے افراد کے اعمال ان کے ذاتی جرائم ہيں، ان کے يہ اعمال ان کے معاشرے، خاندان يا اس مذہب کے عکاس نہيں جس کی پيروی کرنے کا يہ دعوی کرتے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov

 
 Reply:   Fawad – Digital Outreach Team – US State Departmen
Replied by(Fawad_-_Digital_Outreach_Team_US_State_Dept) Replied on (10/Jun/2009)

يہ درست ہے کہ امريکی سفارت خانے نے اسلام آباد کے گردونواح ميں کراۓ پر مکانات ليے ہيں۔ يہ نہ تو کوئ خفيہ کاروائ ہے اور نہ ہی کسی سازش کا حصہ۔

اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانہ مرمت اور توسيع کے عمل سے گزر رہا ہے۔ يہ 3 سال پرانا منصوبہ ہے جس کی حال ہی ميں کانگريس نے باقاعدہ منظوری دی ہے۔

يہ کانگريس کميٹی کی رپورٹ کے اس حصے کا عکس ہے جس کے مطابق اسلام آباد ميں سفارت خانے کی توسيع کے لیے 736 ملين ڈالرز کی منظوری دی گئ ہے۔

http://img192.imageshack.us/img192/6175/clipimage002edg.jpg

يہ ايک عام فہم بات ہے کہ مرمت کے دوران کچھ سفارت کاروں اور اہلکاروں کو عارضی طور پر کراۓ کے مکانوں ميں منتقل کيا جاۓ گا۔

ميں آپ کو يہ بھی ياد دلا دوں کہ امريکہ ميں بھی پاکستان کے سفارت کار، ديگر ممالک کے سفارت کاروں کی طرح واشنگٹن اور نيويارک ميں کراۓ پر مکانات ليتے رہتے ہيں۔ ليکن امريکہ ميں کوئ بھی ايسے مصالحے دار کالم نہيں لکھ رہا کہ پاکستان اور آئ – ايس – آئ امريکی حکومت کی رٹ کو چيلنج کرنے کی سازش کر رہے ہيں۔

يہ ايک حقيقت ہے کہ امريکہ نے پاکستان کے لیے سالانہ 5۔1 بلين ڈالرز کی امداد اگلے پانچ سالوں کے لیے منظور کی ہے۔ اس امداد کا بڑا حصہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں صحت، تعليم اور تعمير وترقی کے کئ منصوبوں پر خرچ ہو گا۔ اس تناظر ميں پاکستان ميں امريکہ کی سفارتی کوششوں اور تعلقات ميں توسيع اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امريکہ پاکستان سے وسيع بنيادوں پر طويل مدت کے ليے سفارتی تعلقات استوار کرنے کا خواہش مند ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 
 Reply:   Fawad – Digital Outreach Team – US State Departmen
Replied by(Fawad_-_Digital_Outreach_Team_US_State_Dept) Replied on (10/Jun/2009)

سی – آئ – اے کی اسلام آباد ميں خفيہ سرگرميوں کے حوالے سے کالم اس مقبول عام طرز فکر اور صحافتی انداز تحرير کا عکاس ہے جس ميں کچھ ادھورے حقائق اور جانب دارانہ تجزيے کے ذريعے تجسس تخليق کيا جاتا ہے۔ اصل فوکس "سازش کی بو" ہوتا ہے – سچ نہيں۔

آپ کو اس کی ايک مثال ديتا ہوں۔

ہفتے کے روز ڈاکٹر شاہد مسعود جيو پر اپنے مقبول پروگرام "ميرے مطابق" ميں صدر اوبامہ کے حاليہ دورہ قاہرہ پر اپنا تجزيہ دے رہے تھے۔ اس پروگرام کے 2:52 منٹ پر وہ کہتے ہيں

http://pkpolitics.com/2009/06/06/meray-mutabiq-6-june-2009/

"يہ پوٹس کون ہے ؟ دورہ قاہرہ کے دوران سی – آئ – اے کے اہلکار صدر اوبامہ کے بارے ميں اپنے مواصلاتی نظام ميں پوٹس کی اصطلاح استعمال کرتے رہے"۔

جس کسی نے بھی امريکی حکومت ميں کام کيا ہے وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ پوٹس محض "پريذيڈينٹ آف دی يونائيٹڈ اسٹيٹس" کا مخفف ہے۔ يہ کسی ذومعنی يا خفيہ پيغام پر مشتمل کوڈ نہيں ہے جو سی – آئ – اے نے استعمال کيا۔ ہم بھی اپنے دفتری روابط ميں يہ اصطلاح اکثر استعمال کرتے ہیں۔

آپ ديکھ سکتے ہيں کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے کس طرح ايک مخصوص انداز اور طريقہ گفتگو سے ايک معمولی سی حقیقت ميں تجسس کا عنصر شامل کر ديا۔

اپنے کالم ميں "پراسرار سرگرمياں"، "کچھ مخصوص اين جی اوز" اور "مشتبہ غير ملکيوں" جيسے الفاظ استعمال کر کے حامد مير کوئ ايسے ثبوت يا حقائ‍ق نہيں پيش کر رہے جنھيں کسی انصاف کی عدالت ميں پيش کيا جا سکے۔ يہ صرف بے چينی اور ان گنت سازشی کہانيوں ميں اضافے کی کوشش ہے جس کا حقيقت سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 
Please send your suggestion/submission to webmaster@makePakistanBetter.com
Long Live Islam and Pakistan
Site is best viewed at 1280*800 resolution