مبالغہ آرائ کالم یا تحریر کا حصہ سہی مگر اس مبالغے میں بھی بہت مبالغہ ہے کہ اس ملک کے 80فیصد لوگ روزانہ مسجد میں جاتے ہیں۔اگر آپ پاکستان کی بات کر رہے ہیں تو یہاں یہ تعداد 3فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ قرآن پڑھنے والوں کی تعداد اسی پر قیاس کر لیں۔ دوسری بات یہ کہ آپ کو عذاب سنانے کے لءے صرف نمازی اور علماء ہی کیوں ملتے ہیں ۔آپ یہ وعیدیں ان کا نام لے کر تو سنا نہیں سکتے جن کے ساتھ ہیلی کاپٹر گردی کرتے ہیں۔ یقینا وہ حضرات عوام سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔وہ شخص جس نے عافیہ کو اغواء کروایا،جس نے اُسے بگرام پہنچایا،جس نے اُس کی قیمت وصول کی ان کے نام لے کر وعید دیتے ہوءے آپ کو گوانتانا مو یاد آتا ہے؟۔ہر ہر لکھنے والا ہمارا گریبان پکڑ پکڑ کر ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہم بھٹکے ہوءے ہیں مگر کوءی راہ بتانے کے قابل نہیں،پتہ ہے کیوں؟۔۔۔۔اس لءے کہ یہ سب بھی ہمارے قافلے کے مسافر ہیں،اسی بھٹکے ہوءے قافلے کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھٹکے ہوءے قلم کار
ہاں بھاءی یہ ساری تفصیلات اخبارات میں گذشتہ ایک ہفتے میں شاءع ہوءی ہیں جہاں سے آپ کے ایک ملازم نے جو اسی کام کے لءے مخصوص ہے آپ کے لءے جمع کر کے رکھیں اور آپ نے خبر لخت لخت کو کالم کی شکل دے دی۔آپ کا کیا خیال ہے کالم میں جھوٹ لکھنے والوں سے اللہ تعا لیٰ کچھ نہیں پوچھیں گے؟۔عافیہ اور اس کے بچے بھی عجیب ہیں، پانچ سال سے غاءب تھے جب ایک مغربی صحافی خاتون نے اس کی بگرام موجودگی کی خبر دی تو وہ آپ کے سرہانے بیٹھ کر آپ کو تنگ کرنے لگے۔آپ کو پتہ ہے جاوید صاحب وہ آپ کے پاس بیٹھ کر کیوں روتےہیں؟۔اس لءے کہ آپ ان پر ہونے والے ظلم کو تراش خراش کر اپنی تحریر کی صورت فروخت کرتے ہیں۔آپ ان زندہ لاشوں کی تجارت کرتے ہیں۔اگر ان کو فروخت کرنے والے مجرم ہیں تو ان کی کہانی پر اپنا ہنر آزما کر پیسے کمانے والے بھی کم مجرم نہیں، ہر گز نہیں،ہر گز نہیں۔
Reply:
آپ کالم نگاری چھوڑ کر افسانہ نگا
Replied by(
Noman)
Replied on (12/Aug/2008)
آپ کالم نگاری چھوڑ کر افسانہ نگاری کیون نھین شروع کرتے، آپ کے کل کے کالم مین آپ خوب خرگوش کے مزے لے رھے تھے جب شہباز شریف کے آدمیون نے آپ کو اٹھایا اور آج کے کالم مین عا فیہ صدیقی دو ماہ سے آپ کو سونے ھین دیتی، کمال ھے ھالنکہ وہ تو پانچ سال سے لاپتہ ھے