Search
 
Write
 
Forums
 
Login
"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Image Not found for user
User Name: Noman
Full Name: Noman Zafar
User since: 1/Jan/2007
No Of voices: 2195
 
 Views: 2432   
 Replies: 0   
 Share with Friend  
 Post Comment  
احمدرضا
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
کراچی پولیس کی جانب سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے 12 مئی کے دورے کے لیے بنائے گئے سکیورٹی پلان میں یہ امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ اس روز خودکش حملے، بم دھماکے اور سیاسی رہنماؤں اور اہم شخصیات پر مسلح حملے ہو سکتے ہیں تاہم حیرت انگیز طور پر یہ حکم بھی دیاگیا کہ ریلیوں میں حفاظتی فرائض پر مامور اور مختلف مقامات پر تعینات کی جانے والی پولیس پلاٹونوں میں شامل اہلکاروں کو کوئی ہتھیار نہ دیا جائے۔ یہ سکیورٹی پلان کراچی پولیس کے سربراہ اظہر فاروقی کی جانب سے ایس ایس پی سکیورٹی کراچی ڈاکٹر محمد امین یوسف زئی کے دستخط سے 11 مئی کو صوبائی دارالحکومت کے تمام ٹی پی او سے لے کر تھانیداروں تک تمام پولیس افسران کو جاری کیا گیا تھا اور اس کی ایک نقل بی بی سی کے پاس بھی ہے۔
اس پلان میں ہدایت کی گئی تھی کہ تمام پولیس افسران 12 مئی کی صبح پانچ بجے اپنی اپنی ڈیوٹیاں سنبھال لیں اور انہیں صرف لاٹھیاں اور آنسو گیس پھینکنے والی رائفلیں دی جائیں۔
سکیورٹی پلان میں دو مرتبہ یہ بات تحریر ہے کہ ریلیوں میں حفاظتی ڈیوٹیوں پر مامور اور مختلف مقامات پر تعینات کی جانے والی پولیس پلاٹونوں میں شامل اہلکاروں کو کوئی ہتھیار نہ دیا جائے
تاہم ساتھ ہی ٹی پی اوز یعنی ٹاؤن پولیس آفیسرز کو یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ جہاں ضرورت ہو وہ پولیس عملے کو بہت دیکھ بھال کر ہتھیار دیں۔ منصوبے میں یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ طاقت کے استعمال سے حتی الامکان گریز کیا جائے تا وقتیکہ کوئی بڑے پیمانے پر لوٹ مار، جلاؤ گھیراؤ اور جانی و مالی نقصان نہ ہو۔
ان تمام ہدایات کے ساتھ ہی عام طور پر ایسے سکیورٹی منصوبوں میں امن و امان کے حوالے سے جن امکانی خطرات کا تذکرہ کیا جاتا ہے اس حوالے سے اس پلان میں یہ خطرہ ظاہر کیا گیا تھا کہ 12 مئی کو کراچی شہر میں خودکش حملوں، بم دھماکوں، سیاسی مخالفوں کے درمیان تصادم، اندھا دھند فائرنگ اور دستی بموں کے ذریعے ریلیوں پر حملوں، سیاسی رہنماؤں اور اہم شخصیات پر مسلح حملوں کے علاوہ گاڑیاں اور املاک نذر آتش کرنے کے واقعات بھی رونما ہوسکتے ہیں۔ کراچی میں سنیچر کو ہونے والی بیشتر اموات سڑکوں کی ناکہ بندی کے باعث بروقت طبی امداد نہ ملنے کی بناء پر ہوئیں۔ تاہم حیرت انگیز طور پر پولیس کے اس سکیورٹی پلان میں یہ ذمہ داری ڈی ایس پیز اور تھانیداروں کو سونپی گئی تھی کہ وہ اپنے علاقے میں ضروری مقامات پر خاردار تاریں لگاکر یا پانی کی ٹینکرز، مزدا ٹرک اور منی بسیں کھڑی کرکے سڑکوں کی ناکہ بندی کریں۔ سکیورٹی پلان میں ٹی پی اوز کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کراچی ائرپورٹ، سندھ ہائی کورٹ بلڈنگ اور شاہراہ فیصل کے اطراف منتخب بلند عمارتوں کی چھتوں پر مسلح اہلکار تعینات کریں اور حفاظتی ڈیوٹی کے لیے متعلقہ ٹی پی او خود انہیں بریفنگ دیں۔ تاہم عینی شاہدین کے مطابق 12 مئی کو ان تینوں مقامات پر جن کی خصوصی طور پر نشاندہی کی گئی اور خاص طور پر شاہراہ فیصل پر جس پر تشدد کے نتیجے میں سب سے زیادہ اموات ہوئیں، پولیس اہلکار موجود نہیں تھے اور جہاں کہیں تھے بھی تو انہوں نے پرتشدد کارروائیوں میں مشغول مسلح افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
اس سکیورٹی پلان میں یہ تحریر ہے کہ 12 مئی کو چیف جسٹس کی کراچی ائرپورٹ پر آمد کے بعد ایس پی ہیڈ کوارٹر گارڈن کراچی رانا محمود پرویز سادہ لباس میں ملبوس خصوصی تربیت یافتہ 20 پولیس اہلکاروں کے ساتھ دورہ کراچی کے دوران ان کی حفاظت پر مامور ہوں گے۔ کراچی میں سنیچر کو ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد عینی شاہدین اور زخمیوں کا کہنا تھا کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے خون کی ہولی کھیلنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

BBC Link
 No replies/comments found for this voice 
Please send your suggestion/submission to webmaster@makePakistanBetter.com
Long Live Islam and Pakistan
Site is best viewed at 1280*800 resolution