Search
 
Write
 
Forums
 
Login
"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Image Not found for user
User Name: Amjad_Malik
Full Name: Amjad Malik
User since: 15/Jun/2007
No Of voices: 293
 
 Views: 1859   
 Replies: 0   
 Share with Friend  
 Post Comment  

وقت کم ہے اور مقابلہ سخت

بیرسٹر امجد ملک 

 

 

عمران خان نے بطور وزیراعظم 19 اگست 2018 کو پاکستانی قوم سے براہ راست  ڈائیلاگ کی صورت ایک لمبا خطاب کیا۔ عمران خان کی تقریر میں بہت کچھ قابل غور تھا اور بائیس سال بعد اقتدار میں آنے کے بعد بہت کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن جو معاشرے کی صحیح بیماریاں ہیں ان تک پہنچتے پہنچتےانکی حکومت کا وقت ہوجانا ہے اس لئے انکے لئے پہلے سو دن ہی سب ہے۔ وقت کم ہے اورمقابلہ سخت ۔

 

اگر وہ سادگی اختیار کرکے مڈل کلاس کو الیکشن لڑنے کی طرف راغب کرگئے اور الیکشن آخراجات پر قانون کے مطابق مکمل عمل کروایا اور سیاست ایک چائے کی پیالی پر لے آئے تو یہ نئے پاکستان کی طرف پیش قدمی ہوگی۔ لیکن بنی گالہ کے محل سے بیٹھ کر غریب کے چولہے کی فکر ایک سیاسی بیان تو ہے لیکن حقیقت بڑی تلخ ہے کیونکہ ہیں بہت تلخ بندہ مزدور کے اوقات۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی کی چادر کی مثال سے خود احتسابی کا سراب حل نہیں ہوجاتا۔ اگر زرائع آمدن نہ ہوں تو موازنہ سابق کامیاب کرکٹروں جاوید میانداد ،وسیم اکرم اور انضمام الحق سے کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ انکا رہن سہن کیسا ہے اور کیا وہ بنی گالا کا محل الیکشن کمیشن میں ڈکلئیرڈ اثاثوں سے چلا سکتے ہیں یا سب خواب ہیں۔ خود احتسابی خود فریبی نہ ہو اس لئے میڈیا اور حزب اختلاف کو مکمل آزادی دینا ہوگی تاکہ احتساب ہو بھی اور ہوتا نظر بھی آئے۔ وگرنہ سب سیاسی بیان ہوگا۔ انہوں نے بہت سارے مسائل پر گفتگو کی لیکن آئیے ہم دیکھتے ہیں وہ کچھ نکات جو انکی مزید توجہ کے متمنی ہوں گے۔

 

 1-سب سے اہم جمہوریت کی مضبوطی کے لئےجنرل الیکشن 2018 کے دوران اور 6 بجے شام کے بعد ہونے والے واقعات ہیں جس میں پولنگ سٹیشن سے پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالنا ، فارم 45 کا یک مشت نہ دینا اور رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم  (RTS) کی ناکامی جیسے اہم نکات ہیں ۔ آج اگر عوام اور پارلیمان کا اعتماد اس نظام پر بحال کریں گے تو یہ کل ان تمام جمہوری قوتوں کو بھی توانا کریں گے جو ووٹ کے احترام اور عزت کے متمنی ہیں جن میں وزیراعظم کی جماعت بھی 2013 کے الیکشن کے بعد شکائت کنندہ رہی ہے۔ پارلیمان کے زریعے اسکا حل ہوسکتا ہے اگر وہ پہل کریں-یہ انکی تقریر کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔

 

2-وزیراعظم پاکستان نے اخراجات کا واویلہ بہت مچایا لیکن عام آدمی سے قربانی کے علاوہ دفاعی آخراجات پر لب کشائی سے پرہیز کیا۔ 2017 کے بجٹ میں دفاعی اخراجات 17 بلئین ڈالر کے قریب تھےجو پاکستانی بجٹ کا دوسرا بڑا خرچہ ہے اور 50 کمرشل اداروں میں دفاعی اداروں کی گہری دلچسپی ہے جو کہ اس سال 20 بلئین ڈالرتک پہنچتی نظر آرہی ہےایسے میں ان اخراجات کو کسی آڈٹ اور آئین کے تحت پارلیمانی کنٹرول اور نظر ثانی اور ملکی سلامتی اور ضرورت کے ماتحت کرنا باقی اداروں کی طرح  وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے اختر مینگل صاحب سے لاپتہ افراد کے سلسلے میں لکھ کر وعدے وعید کئے ہیں ان پر کوئی بامقصد ادارہ جاتی اصلاحی پروگرام اور قانون سازی کا اعلان ہونا چاہیے تھا تاکہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو تشفی ہو کہ وہ گھر آسکیں گے یا انکے رشتہ داران کو  چارج کرکےعدالتوں میں پیش کیا جائیگا۔ بلوچ راہنما سے بلف ملکی سلامتی کے ساتھ کھلواڈ ہوگا کیونکہ انکا وزارت سے انکار اس دائمی عدم اعتماد کی طرف اشارہ ہے جسکا ادراک اور حل بہت ضروری ہی اور وزیراعظم کو اپنے اتحادی چوہدری شجاعت حسین سے اس سلسلے میں مشاورت کرنی چاہیے۔

 

3-اقتصادی فرنٹ پر قوم کو ڈرانے اور پیٹ کاٹنے کے علاوہ کوئی با معنی منصوبہ پیش نہیں کیا ۔ 90 بلئین کا قرضہ صفر پر کیسے چھوڑ کے جائیں گے اسکے لئے نیوکلئیائی پروگرام کی ضرورت ہے۔ پاک چائنہ کاریڈار کا کیا ہوگا ۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پاس جا رہے ہیں یا نہیں؟ اور اگر جا رہے ہیں تو کیا شرائط ہوں گی یہ اہم سوالات ہیں جن کے جوابات مِسنگ تھے۔ ایف بی آر کی بحالی اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانا اچھے ارادے ہیں لیکن یہ کیسے ہوگا کا جواب نہیں ملا۔ ڈار صاحب کے زمانے میں جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ ہوا آپ اسکو کیسے برقرار رکھیں گے اور سوئیٹزرلینڈ میں پڑے 200 بلئین ڈالر واپس لانے کے بارے میان تقریر مکمل خاموش تھی۔ شریف خاندان کے فلیٹ بیچ کر یہ قرضے نہیں اتریں گے اسکے لئے مزید تجاویز اور مشاورت درکار ہے ۔

 

4-عمران خان احتساب کے بارے میں بہت حساس ہیں ، ہونا بھی چاہیے۔کسی نے انکے ہاتھ میں چھانٹا پکڑا کر زبردستی ایک احتساب دان اور ریفارمر کا رول ادا کرنے پر مجبور کیا ہے۔  ‏وزیراعظم عمران خان کی حزب اختلاف عمران خان صاحب خود ہیں اور انکے ارشادات اور فرمودات اگر وہ خود پہ قابو پالیں تو حزب اقتدار کے مزے لوٹ سکتے ہیں اور اختیار کی طرف پیش قدمی بھی ممکن ہے لیکن انہیں اپنے اندر کااپوزیشن لیڈر مارنا ہوگا۔ اب وہ حکومت میں ہیں اور لوگ احتساب مگر سب کا مانگ رہےہیں ۔سیاستدان جج ,جنرل ,بیوروکریسی اور پولیس سب اس گنگا میں ننگے نہائے ہوئے ہیں ۔حکومت حکمت کے ساتھ کیسے ان سب کس احتساب ممکن بنائے گی یہ حکمت ،زہن کی تبدیلی ،زہن سازی اور صحیح معنوں میں قائداعظم کے افکار پر عمل کرکے ہی ممکن ہے۔ لیکن سادگی کے علاوہ سب کا مکمل احتساب انکی تقریر سے محروم رہا۔ ‏اور نئی حکومت نواز شریف کے سحر سے نکل نہ سکی اور پہلی کابینہ نے جیل میں قید سابق وزیراعظم کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈال دیا جس سے احتساب اور انتقام کہیں مکس ہوتا نظر آرہا ہے -یہ ایسا ہی ہے کہ تیرے نام سے شروع تیرے نام پہ ختم اور احتساب مگر سب کا ایک قصہ پارینہ ہے جو شائید قصہ خوانی بازار میں قصیدوں کی شکل میں ہی بکتا رہے۔ جن ججوں اور جرنیلوں نے کرپشن کی ہے منظر عام پر آنے کے بعد انہیں کس قانون کے تحت باعزت استعفوں اور پنشن کا حقدار ٹھہرایا جاتا ہے وہ پارلیمان کے دیکھنے کی ضرورت ہے اور عمران خان کی تقریر میں خلیفہ دوم کے علاوہ اس طرف اشارہ بھی ضروری تھا کہ احتساب مگر سب کا۔

 

5-اچھی بات یہ تھی کی انہوں نے لوڈشیڈنگ کی بات تو نہیں کی لیکن ماحولیات ،توانائی اور پانی کی کمی ایک اہم مسلۂ تھا اور ہے۔ اچھی بات ہوتی اگر وہ ڈیم کی تعمیر کو چیف جسٹس پر چھوڑنے کی بجائے پروگرام دیتےکیونکہ چیف جج انصاف کی فراہمی ممکن بنا لیں یہ بھی بہت ہی جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ کیس زیر التوا ہیں اور بارہ ماہ کی ڈیڈ لائین بھی دی جا چکی ہے۔ انہیں پتہ پے ڈیم موٹروے ائیرپورٹ میٹرو بس یا اورنج ٹرین جیسے منصوبے خیالی خیرات پر نہیں بنتے۔ انہیں وقت ضائع کئے بغیر پارلیمان اور باہمی مشاورت کے بعد ایک جامع منصوبہ بندی کا پروگرام دینا چاہیے تاکہ اس پر صحت افزا پیش رفت ہوسکے۔ کراچی میں پانی کی کمی اور ٹینکر مافیا سے نجات صاف پانی کی فراہمی میں پنہاں ہے۔ سعودی عرب کی طرح سمندر پر واٹر فلٹریشن پلانٹ کے زریعے سخت پانی کو نرم اور نرم کو صاف کرکے کافی مسائل حل کئے جاسکتے ہیں ۔ ایسی چیزیں انکی تقاریر میں نظر آنا چاہیے۔ پچھلے الیکشن اور موجودہ الیکشن میں پانی اور بجلی متواتر موزوں ایشوز تھے ۔ اب جبکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم ہے جو ایک اچھی بات ہے اب بھاشا ڈیم اور چھوٹے ڈیموں کی تعمیر اور اسکے وعدے اور تکمیل کے تخمینہ اور اسکے تکمیل کے وقت پر یقین عملیت پسندی اور پرفارمنس سے پرکھنا ہوگا۔

 

6-عمران خان کی جماعت انصاف کی داعی ہے اور سامعین کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انصاف اور اسکے معیار کو بہتر کرنے کے لئےوزیراعظم کے پاس کیا جامع پروگرام ہے۔ عام آدمی تک انصاف کی اسکی دہلیز پر رسائی نظام میں دوررس تبدیلیوں کے بغیر ممکن نہیں ۔ کون وہ تبدیلی لائے گا۔ کیا عوام انصاف کے لئے اعلی عدالتوں کے از خود نوٹس کی محتاج ہوں گی تاکہ انصاف ہو یا مقامی عدالتوں کو مضبوط بنا کر حکمراں جماعت کی 12  ماہ میں چھوٹے مقدمات کو ختم کرنے کے وعدوں کو عدالتی اصلاحات سے یقینی بنایا جائے گا۔ دونوں بڑی پارٹیاں انصاف کی داعی تھیں بلکہ ایک تو انصاف کی دہائی کی مکمل تصویر ہی اور وزیراعظم کی پارٹی توپوری کی پوری تحریک انصاف ہے اور حزب اختلاف ججوں انصاف کے لئے 2009 میں لانگ مارچ کر چکی ہے ۔ایسے میں انکی پہلی تقریر فوری عدالتی اصلاحات کے بارے میں واضح ہونی چاہیے تھی۔

 

7-سب سے بڑا مسلۂ یہ ہے کہ وہ آزادانہ داخلہ اور خارجہ پالیسی کے لئے سول اور ملٹری بیروکریسی کے ساتھ اپنے معاملات کیسے تشکیل دیتے ہیں۔ عمران خان جذباتی ضرور ہیں لیکن انکو اب تک تجربہ ہو چکا ہوگا ۔دیکھنا ہوگا کہ انڈیا امریکہ اور بین الاقوامی دنیا سے تعلقات کیسے ہوں گےاور ملٹری تھنک ٹینک اور اسٹیبلشمنٹ کا ایسے فیصلوں پر کیا اور کتنا اثر ہوگا اور حکمران پارٹی کتنا اثر قبول کرنے کی عوامی طاقت رکھتی ہے ۔ کیونکہ کمزور حمران کے لیئے مائی وے یا ہائی وے والا حساب ہے۔ عمران خاں ابھی لمبے چوڑے دعوے کر رہے ہیں لیکن انکو جو دفتر ملا ہے اسے وہ ایک سپریم کورٹ کی پٹیشن کے زریعے پہلے ہی مزید کمزور کر چکے ہیں اور اب وہ نواز شریف کی جگہ پر کھڑے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا بائیسویں وزیراعظم کے طور پر عمران خان وزیراعظم کے طور پر اپنی مدت ملازمت مکمل کر پائیں گے یا نہیں ۔ آخری تین نہیں کر پائے اور ان میں ان سے زیادہ تجربہ نہیں ہے۔ کیونکہ وزیراعظم آفس اب بہت کمزور ہو چکا ہے اور یہی چیلنج ہے۔ پارلیمان ساتھ دے تو ضرور لیکن سول ملٹری بیلنس کی لئے انہیں مداری بننا پڑے گا۔ تقریر میں خارجہ تعلقات کو برابری کے تعلقات تک محدود رکھا جو ناکافی تھا۔ کشمیری انکی طرف انڈیا سے ڈائیلاگ کے علاوہ بھی کچھ سننا چاہتے تھے کیونکہ مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے یہ نعرہ سنتے سنتے عمران خاںن کی حکومت کو انڈیا کے اوپننگ کرکٹ بیٹسمین سِدّھو پر لٹتے پٹتے دیکھا تو تھوڑے سکتے میں چلے گئے کیونکہ وہ بیچارے نہیں جانتے تھے کہ مودی کے یار والا تو عمران خان کا سیاسی بیان تھا اب تو ایک قدم تم اور دو قدم ہم والی محبت ہے لیکن عوام کو بتانا ان پر لازم تھا ۔ فاٹا کے بارے میں اشارہ تو تھا گلگت اس سعادت سے محروم رہا۔ 

 

8-توہین رسالت کا قانون حزب اختلاف کے قدامت پسند ووٹوں کی تطحیر کا باعث بنا لیکن تقریر میں اسکے بارے میں قومی پالیسی اور عالمی زہن سازی کا زکر نہ کرنا وزیراعظم کی حلف برداری میں کی گئی غلطیوں کے بعد بہت ضروری تھا اور یہ انکی ٹیم کی نا اہلی ہے کہ اگر یہ مس ہوا۔ او آئی سی کے زریعے ڈینش کارٹون والا معاملہ فوراً اقوام متحدہ سے اٹھانا چاہیے۔ 

 

9-آخر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ، طالبان سے وسیع آلبنیاد ڈائیلاگ اور نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کے بارے میں وزیراعظم پاکستان کی عدم توجہ بہت سارے ناقدین کے لئے حیران کن تھی لیکن سمجھ سکتے ہیں کی اس چیز سے اجتناب کریں جس سے ہاتھ جلتے ہوں۔ لیکن انہیں جلد اس سلسلے میں قانون سازی اور معاملہ سازی کرنا ہوگی کیونکہ فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے کے قریب ہوگی اور خصوصی عدالتیں بنائے بنا دہشت گردوں کو کھلی چھٹی نہیں دی جاسکتی۔ برطانوی (SIAC) سیاک ماڈل بین الاقوامی دہشت گردوں کو پکڑ کر ٹرائیل کرنے میں ایک اچھا ماڈل ہے۔ 

 

10-اوورسیزسےعمران خان کو بہت امیدیں ہیں اور انہوں نے ہر مالی امداد کی امید ان سے وابسطہ کر رکھی ہے لیکن معاملہ اب شوکت خانم کے لئے چیریٹی اکٹھا کرنا نہیں بلکہ ریاستی بزنس ہے لیکن لگتا ہے انکو وعدہ فردا پر ہی ٹرخا دیا ہے نہ ہوگا وزیراوورسیز پاکستانیز اور نہ تارکین وطن کریں گےکوئی مطالبے ووٹ اور حق نمائیندگی,قبضہ سے نجات کی عدالتیں اور سرمایہ کاری کے ڈیسک ہوئے موخر اگلی تقریر تک۔ تارکین وطن بھی عمران خان کی طرح انتظار میں تھے کہ ایک مکمل پیکج کا اعلان ہوگا جس میں فری ویزہ ، نادرہ کارڈ ، گھر پر قبضے سے نجات ، سرمایہ کاری اور جاب میں یکساں مواقع، ووٹ اور پارلیمان میں حق نمائیندگی اور پاکستان آنے جانے میں مکمل سہولیات شامل حال ہوں گی۔ لیکن وزیراعظم بننے کے بعد انکی تقریر میں صرف ساحل سمندر پر لیٹے سیاح ہی سما سکے اور 80 لاکھ تارکین وطن انتظار کرتے بس رہ گئے۔

 

پھر بھی عمران خان نے پاکستانی قوم کے سامنے اپنا مافی آلضمیر بیان کیا انکے سپورٹر اور نوجوان ووٹرو خوش ہیں کہ آخرکار وہ وزیراعظم کی کرسی پر براجماں ہیں اور انہیں شک کا فائیدہ بھی دینا چاہیے کہ یہ انکے سو دن کا ابھی آغاز ہے اور آنے والی کیبینٹ میٹنگ میں وہ ان ایشوز کو لاپتہ افراد کی طرح پس پشت نہیں ڈالیں گے۔ اب انکو انتقام کی عینک اتار کر سب کا وزیراعظم بننا چاہیے اور سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہیئے ۔  انکی تقریر کے بعد اگلے دن اسلام آباد پولیس کی ان پاکستانیوں کی گرفتاری لمحہ فکریہ ہے جو صرف نواز شریف کا استقبال گل پاشی سےکر رہے تھے ۔ آزادانہ اظہار رائے ، فری میڈیا، قانون کی عمل داری ، انصاف اور اسکے قانونی تقاضوں پر سب عوام کا مشرکہ حق ہے۔ یہ وزیراعظم کا فرض ہے کہ وہ انسانی حقوق کے بنیادی تحفظ سے کبھی بھی پہلو تہی نہ کریں، یہی انکی ابتدائی جیت ہوگی۔

پاکستان زندہ باد۔ 

بیرسٹر امجد ملک  ایسوسی ایشن آف)

پاکستانی لائیرز برطانیہ کے چئیرمین اور سپریم کورٹ بار اور ہیومن رائیٹس کمیشن پاکستان کے تاحیات رکن ہیں)

 

20 اگست 2018 

 

 

 No replies/comments found for this voice 
Please send your suggestion/submission to webmaster@makePakistanBetter.com
Long Live Islam and Pakistan
Site is best viewed at 1280*800 resolution