آزاد عدلیہ
ایک دفعہ پھر نشانے پر
بیرسٹر امجد ملک
آج کل کی
تازہ خبر یہ ہے کہ
آخرکار حکومتی صبر
جواب دے گیا اور کوئٹہ
کمیشن اور اسلام آباد دھرنے
جیسی شہرہ آفاق عدالتی نظیریں
دینے کے بعد جسٹس قاضی
عیسی کو زاتی نوعیت کے
خانگی الزامات پر
ریفرینس صدارتی محل
کی جانب سے سپریم جوڈیشل
کونسل کو بھیجنے کی شنید
ہے۔ حالات و واقعات بتا
رہے ہیں کہ ان پر
عمل درآمد بھی شد و
مد سے ہوگا۔ ارے بھئی
یہ جج صاحب کون ہیں
کیا ہیں کہ اتنے دروازے
کھٹک رہے ہیں ۔ میں
ملا تو نہیں شوق ضرور
بڑھ گیا ہے۔ قاضی فائز
عیسی اس قاضی عیسی کابیٹاجوتحریک
پاکستان کے ہراول دستے کےرکن
تھے،جس نے بلوچستان
میں آل انڈیامسلم
لیگ قائم کی ،قائد اعظم
نے خودانہیں صوبائی
مسلم لیگ کا صدر بنایا،قاضی
فائزاس قاضی جلال الدین کاپوتاجوریاست
قلات کےپہلے وزیراعظم
تھے،آج ہم نےاس قاضی کوکٹہرے
میں کھڑاکردیا ہے۔
قاضی صاحب کے ایسے خطابات
عرصے سے درد سر بنے
ہوئے ہیں “آپ کے پاس
کوئی چوائس نہیں
ہے فوجی اور جمہوری حکومتوں
کے درمیان چننے
کی۔ جب تک یہ دستور
ہے فوجی حکومت
ناجائز ہے۔ آپ کو اس
سے مسئلہ ہے تو کہیں
اور چلے جائیے۔”
ایک ہی کوئٹہ کا جج
اور بھلا مانس اور اس
پر بھی ریفرینس
اور پھر پوچھتے
ہیں عقل بڑی کہ بھینس
ارے بھائی اپنا
کام کرو اس سے پہلے
کہ کام باقی نہ رہے
- اپنی حیثیت سے زیادہ زمہ
داری اٹھانا اور
متواتر اٹھانے سے اپنا تو
نقصان ہوتا ہی ہے ملک
اور قوم کا نقصان زیادہ
ہوتا ہے۔ یہ بات اکابرین
مملکت کو ضرور سمجھنی چاہیے
سندھ ہائی کورٹ
بار ایسوسی ایشن
ایک دفعہ پھر سامنے سے
حق نمائیندگی ادا
کرتے ہوئے اس ریفرینس کے
خلاف نبرد آزما ہونے کے
لئے تیارہے اور
انہوں نے ۳۰ مئی کو
اجلاس منعقد کرکے
اس اقدام کے مذمت کی
ہے اور انکی قرارداد نظر
سے گزری ہے ۔ سپریم
کور ٹ بار ایسوسی ایسوسی
ایشن کی اکثریت نے جسٹس
قاضی فائزعیسیٰ کی
حمایت کردی ہے اور حکومتی
ریفرنس کیخلاف بھرپورتحریک
چلائی جانے کی نوید دی
ہے ، اکثریتی ارکان کی
رائے میں سپریم کورٹ بار
نے ریفرنس کو جوڈیشری کی
آزادی پر حملہ قرار دیا-
زاہد ابراہیم جو
کہ فخر الدین جی ابراہیم
کے سپوت ہیں انہوں نے
اٹارنی جنرل آفس سے ایڈیشنل
اٹارنی کے طور پر استعفی
دیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے
ہیں کہ جن روایات کے
تحفظ کی زمہ داری انکے
کاندھے پر ہے وہ زمہ
داری اور یہ ریفرینس ساتھ
ساتھ نہیں چل سکتے۔زاہد
فخر ابراہیم کے
استعفی اور جسٹس قاضی فائز
عیسٰی کے صدر کے نام
خط کو آسان لینے والوں
نے اپنی مشکلات
مزید بڑھا لی ہیں یہی
غلطی ایک ڈکٹیٹر
نے ماضی میں کی تھی
اور اب دہرائی جا رہی
ہے لیکن پی سی او
ججز کو انکے منتقی انجام
تک نہ پہنچا کر جس
کام ادھورا رہ گیا تھا
اس بار وہ مکمل کرنے
کا موقعہ بھی مل جائیگا
- قانونی اصلاحات کرنا
آسان ہوں گی اور عوامُ
لگتا نہیں کہ وہ اس
ریفرینس میں حکومت کوکامیاب ہونے دیں گے۔لگتا ہے
ہر اُس شخص کو عبرت
کا نشان بنانے
کا ارادہ لگتا
ہے جس نے ملک کی
خاطر کچھ سوچا ہے یا
کچھ کیا ہے - تاریخ نے
ملک توڑنے والے
تو جھنڈوں میں
ہی جاتے دیکھے
ہیں۔اللہ پاک ہدایت دیں ۔
ایک دفعہ ہی برطانیہ کی
حکومت سے پاکستانیوں
کی جائدادوں کی
لسٹ لے لیں ان میں
زیادہ تر وہ خدمت گزار
،پارسا ،غریب تنخواہ
دار اور متوسط طبقے کے
لوگ ہوں گے جن پر
کوئی قانون اثر نہیں کرتا۔
مجھے اچھی طرح
یاد ہے جب ۹ مارچ
۲۰۰۷ کو اسوقت کے طاقتور
فوجی ڈکٹیٹر نے چیف جسٹس
پاکستان افتخار محمد
چوہدری صاحب کو اپنی انا
کی بھینٹ چڑھانا
چاہا تو لوگ اٹھ کھڑے
ہوئے اور معاملہ
۳ نومبر
۲۰۰۷ کی ایمرجنسی
سے ہوتا ہوا لانگ مارچ
کے زریعے عدلیہ
کی بحالی پر منتحج ہوا
۔زندگی
میں کوئی الزام
لگے تو بہت دفاع کرنے
کے بجائے معاملہ
اللّٰہ کے حوالے کر دیں
تو وہ ضرور سچ سامنے
لے آئے گا۔ بعض اوقات
شر میں بھی خیر ہوتی
ہے۔ اہل ایمان کو ایک
دوسرے کے بارے میں اچھا
گمان رکھنا چاہیئے۔
کسی کے بارے میں جھوٹے
پراپیگنڈے کا حصہ
نہیں بننا چاہیئے
اور یہی بالکل صحیح ثابت
ہوا افتخار چوہدری
صاحب کے معاملے میں۔سپریم جوڈیشل کونسل
بالکل نااہل اور کرپٹ ججوں
کی خلاصی کی بارگاہ ہے
لیکن موقعہ طریقہ
کار اور جج کی اہلیت
بہت مددگار ثابت
ہوتی ہے ایسےریفرنسز
کو چلانے میں خاص طور
پر جب ایک جج اہم
نوعیت کے مقدمات سن رہا
ہو یا سننے والا ہو
۔ میری
دانست میں افتخار
چوہدری کے سلسلے میں اپنایا
جانے والا طریقہ
کار غلط تھا اور اب
بھی وقت اور موقعہ محل
سازگار معلوم نہیں
ہورہا۔جج کا تعلق ایک ایسے
علاقے سے ہے کہ جہاں
کی ساری وکلاء
کی لیڈرشپ بلوچستان
بار کے سابق صدر باز
محمد خاں کاکڑ سمیت ایک
دہشت گردی کے سنگین واقعے
کے نتیجے میں شہید ہوئی۔بلوچستان
اس ریفرینس کو
آسانی سے ہضم نہیں کرسکے
گا۔ پنجاب بار کی قرارداد
یں اپنے لوکل بھائیوں کو
تو لبھا سکتی ہیں لیکن
بلوچستان کی پہلے سے محروم
زدہ احساس رکھنے
والی قوم کے لئے کسی
دلچسپی کا باعث نہ ہیں
بلکہ نفرت آمیز ہیں۔ لگے
گا یہی کہ حکومتی احکامات
کی بجائے آئین
اور قانون کے مطابق فیصلے
کرنے والے ججز کو ایک
ایک کرکے ہٹایا
جا رہا ہے ۔ ایمانداری
اور دیانتداری کو
جرم ٹھہرانا قطعی
قابل قبول نہیں۔جو
سلوک میڈیا کے ساتھ روا
رکھا اب لگتا ہے نظران
جیورسٹ کی طرف ہونے والی
ہے جو کہا نہیں مانتے۔
ریاستی اکائیاں ایک
ایک کرکے کمزور
کی جارہی ہیں ناجانے کس
بات کا خوف اور کس
چیز کی تیاری جاری ہے
کہ سارا عالم ہو کا
ہے اور خوف بچے دے
رہا ہے اور ظلم سورج
کی طرح سوا نیزے پہ
آیا چاہتا ہے ۔پہلے
پانچ میڈیا مین نشانہ تھے
اب لگتا پانچ لاء مین
نشانے پہ ہیں لیکن ایک
اللہ کی عدالت بھی ہے
جہاں لگے کیسز پیشی کا
شکار نہیں ہوتے اور یک
مشت خلاصی ہوتی
ہے اور نتیجے پر بھی
کسی کا دباؤ بھی ہوتا۔
مخلوق خدا کے ساتھ انصاف
کریں اور ڈریں اس پاک
ذات سے اِس سے پہلے
کہ آپکا انصاف
ہو. جب خدا کسی قوم
کو غرق کرنا چاھتا ہے
تو ان کے دل و
دماغ پر تالا لگا دیتا
ہے ان کے سوچنے سمجھنے
کی صلاحیتیں ختم
کردیتا ہے پھر وہ ہر
کام اُلٹا کرنا
شروع کردیتے ہیں
اللہ سے دعا ہے کہ
یہ معاملہ ہمارے
ساتھ نہ ہو۔ وکلا برادری
اور سول سوسائٹی
کو ایک بار پھر اٹھناہوگا
اور ماضی کیطرح
عدلیہ کی آزادی کو سلب
کرنےکی کوششوں کوشکست
دینی ہوگی۔حکمران ماضی
سےکبھی سبق نہیں سیکھتے۔اعلی عدلیہ کےججوں
کو اپنے تابع کرنے کے
لیے ایک بار پھر حکومت
ججوں کے خلاف محلاتی سازشیں
کر رہی ہےاس ذہنیت کو
شکست دینے کے علاوہ کوئی
چارہ نہ ہے۔ نواز شریف
صاحب کا جیل سے پیغام
بڑا واضح ہے جو رپوٹ
ہوا ہے کہ “میں ہر
طرح کی قربانی دینےکو تیار
ہوں،اپنی پرواہ نہیں،
یہ ملک و قوم کو
بچانےکا وقت ہے،” پاکستان مسلم
لیگ(ن) کے قائد نوازشریف
نے کہا ہے کہ “آپ
آئینی ادارےکو بچانے
کے لیے بھرپور
صلاحیتیں استعمال کریں-
میرے ساتھ جو ہونا تھا
ہوگیا، جو ہوگا اللہ مالک
ہے- ارکان قومی
اسمبلی اورسینیٹ کامشترکہ
اجلاس فوری طورپر
کل بلایا جائے-
پارٹی معزز جج صاحبان پر
حکومتی تہمتوں کے پلندے کو
بےنقاب کرے اور بھرپور مزاحمت
کرے- عدلیہ پرحکومتی
حملےناکام بنانے میں
کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ
کیا جائے- عدلیہ
پرحکومتی حملے کی جوابی حکمت
عملی تیارکی جائے
گی-میاں صاحب کا پیغام
ہے کہ’’عدلیہ کی آزادی،تحفظ
اوردفاع کیلیے ڈٹ جائیں‘‘۔
بلاول زرداری بھٹو
اور دوسرے رہنماؤں
نے بھی تشویش کا اظہار
کیا ہے۔
آنے والا وقت
کساد بازاری , مہنگائی،
بیروزگاری اور مالیاتی
اداروں کی مداخلت کے باعث
پاکستان کو سخت اقتصادی مشکلات
کی طرف دھکیل رہا ہے۔
عمران خان اپنی اقتصادی ٹیم
پر خود ہی عدم اعتماد
کر بیٹھے ہیں اور نیب
چئیرمین کو بھی سیدھا رکھنے
کے لئے انکی فلم کا
ٹریلر چلا دیا گیا ہے۔
افغان بارڈر پر ہلاکتیں ایک
بڑی خطرناک حالت
کو جنم لے رہی ہیں۔
تمام سیاسی قیادت
جس نے ملک اور عوام
کو ساتھ رکھنا
ہے یا جیل کے اندر
ہے یا جانے والی ہے
یا کیسز بھگت رہی ہے
اور پیچھے بچنے
والے حزب اقتدار
کے لوگ بھی دودھ کے
دھلے نظر نہیں آرہے ۔
ایسے میں انگوٹھہ
چھاپ قیادت ملک میں گورننس
، شفاف
فیصلہ سازی ، اقتصادی اور
معاشی فسکل نظم و ضبط
،مہنگائی اور انصاف کا بحران
جنم دے سکتی ہے۔ یہ
ملک چلانے کی اہلیت عوام
اور اسکے نمائیندگان
کے پاس نہ رہی اور
ملک اس قابل نہ رہا
کہ آسانی سے چلایا جاسکے
تو کون اسے چلائے گا
یہی ملین ڈالر کا سوال
ہے اور یہی اسکا جواب
بھی۔ عوام کو ملکر ایسی
سازشوں کا مقابلہ کرنے کے
لئے ہمہ وقت تیار رہنا
چاہیے۔ جب سول نظام مضبوط
ہوگا تو ہی جمہوریت نئی
لیڈرشپ پیدا کرے گی - جب
پارٹیاں دیوار سے لگائی جائیں
گی ڈبے اٹھائے
جائیں گے تو ووٹ کو
عزت دو کے نعرے گھمسان
کا رن ڈالیں گے- ایسے
میں سیاسی قیادت
ہی عوام کے دکھوں کا
اژالہ کرسکتی ہی اور ایسی
قیادت کو سنبھال کے رکھنا
چاہیے کم از کم جو
ملک بچا سکے وگرنہ جو
ملک بچانے کے دعویدار ہیں
وہ دبئی سے پیشی پر
نہیں آتے تو ملک بچانے
میں تو جان جانے کا
بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اللہ
پاک مدد فرمائیں۔
ظلم بچے
جن رہا ہے کوچہ و
بازار میں عدل کو بھی
صاحب اولاد ہونا
چاہیے :
بیرسٹر امجد ملک
ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائیرز برطانیہ
کے صدر اور ہیومن رائیٹس
کمیشن اور سپریم کورٹ بار
پاکستان کے تاحیات رکن ہیں
اور ہیومن رائیٹس
لائیر آف دی ائیر 2000 کے ایوارڈ کے حامل
ہیں
۳۰ مئی ۲۰۱۹
|